اب نہ ہولی ہے نہ دوالی ہے
گویا تہذیب مٹنے والی ہے
زندگی فرش پہ پڑی تھی اور
میں نے آغوش میں اٹھا لی ہے
سب مروت کے کھیت بنجر ہیں
سارے گاؤں میں خشک سالی ہے
خواہشوں سے بھرا ہوا ہے دل
یہ الگ بات جیب خالی ہے
اب تو سگریٹ بھی پی رہے ہو تم
تم نے حالت یہ کیا بنا لی ہے
سارے مجبور دینے والے ہیں
کوئی جابر ہوا سوالی ہے
مڑ کے آتے نہیں ہو گاؤں میں
اپنی دنیا کہاں بسا لی ہے
پھر سے جھرنا رواں ہے آنکھوں سے
کوہ رخسار پر بحالی ہے
فیضؔ اہل زبان کے نزدیک
ایک بے وزن شعر گالی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.