اب نہ وہ سر ہے نہ سودا ہے نہ سودائی ہے
اب نہ وہ سر ہے نہ سودا ہے نہ سودائی ہے
حسن خود اپنے ہی جلووں کا تماشائی ہے
رات اندھیری ہے بیاباں بھی ہے تنہائی ہے
حسرت دید خدا جانے کہاں لائی ہے
جلوۂ حسن بتاں بوئے گل و نغمہ سا
اتنے پردوں میں بھی اس شوخ کی رسوائی ہے
یا وہ دن تھے کہ ترا قرب تھا حاصل مجھ کو
یا بس اب یاد تری مونس تنہائی ہے
المدد ذوق فنا المدد اے جذبۂ عشق
میری فطرت مجھے پھر ہوش میں لے آئی ہے
جانے تو ہے کہ تری یاد مگر دل میں مرے
تجھ سے ملتی ہوئی اک شکل نظر آئی ہے
سیکڑوں بار مجھے آئنۂ ہستی میں
اپنی صورت تری صورت میں نظر آئی ہے
دیکھ لے بے پر و بالی پہ بھی پرواز مری
اتنا کہہ دے کہ گلستاں میں بہار آئی ہے
تب میں سمجھوں کہ ہوئی جوش جنوں کی تکمیل
خود وہ کہنے لگیں وحشیؔ مرا سودائی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.