اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے
اب نبھانی ہی پڑے گی دوستی جیسی بھی ہے
آپ جیسے بھی ہیں نیت آپ کی جیسی بھی ہے
کھل چکی ہیں اس کے گھر کی کھڑکیاں میرے لیے
رخ مری جانب رہے گا بے رخی جیسی بھی ہے
چوٹیاں چھو کر گزرتے ہیں برستے کیوں نہیں
بادلوں کی ایک صورت آدمی جیسی بھی ہے
اجنبی شہروں میں تجھ کو ڈھونڈھتا ہوں جس طرح
اک گلی ہر شہر میں تیری گلی جیسی بھی ہے
آج کے دکھ ہی بہت ہیں بیم فردا کس لیے
کٹ ہی جائے گی اذیت کی گھڑی جیسی بھی ہے
دھندلا دھندلا ہی سہی رستہ دکھائی تو دیا
آج کا دن ہے غنیمت روشنی جیسی بھی ہے
جھولتی ہے میرے دل میں ایک شاخ اس پیڑ کی
وہ تر و تازہ ہے یا سوکھی ہوئی جیسی بھی ہے
میں نے دیکھا ہے فلک کو جاگتے سوتے ہوئے
میری آنکھوں تک تو آئی چاندنی جیسی بھی ہے
اب کہاں لے جائیں سانسوں کی سلگتی آگ کو
زندگی ہے زندگی اچھی بری جیسی بھی ہے
کوئی موسم ہو مری خوشبو رہے اس پھول میں
داستاں میری کہی یا ان کہی جیسی بھی ہے
اپنا حق شہزادؔ ہم چھینیں گے مانگیں گے نہیں
رحم کی طالب نہیں بے چارگی جیسی بھی ہے
- کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 533)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.