اب شکایت کیا کریں گزرے ہوئے طوفان سے
اب شکایت کیا کریں گزرے ہوئے طوفان سے
روشنی آنے لگی ہے پھر سے روشن دان سے
خواہشوں کی ارتھیاں اب تو اٹھیں گی شان سے
دل لگا بیٹھی ہے میری مفلسی دھنوان سے
چھو گیا جو بھول سے ان کے دوپٹے کا سرا
خوشبوئیں آنے لگیں سوکھے ہوئے گلدان سے
ذہن پر دنیا کی لالچ پھر سے حاوی ہو گئی
دے کے مٹی میں ابھی لوٹا تھا قبرستان سے
گر وفاداری کی خواہش ہے تو کتے پال لے
مت وفا کی آس رکھ اس دور کے انسان سے
شرط یہ ہے کچھ زمیں بونے کی خاطر تو ملے
جیت لوں گا میں جہاں کو ایک مٹھی دھان سے
چھیڑتی ہے یاد تیری جب مجھے پچھلے پہر
رونے لگتا ہوں میں لگ کے میرؔ کے دیوان سے
جن کو ہو جام شہادت کی طلب دیدارؔ پھر
وہ نہیں آتے پلٹ کر جنگ کے میدان سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.