اب تک لہو کا ذائقہ خنجر پہ نقش ہے
اب تک لہو کا ذائقہ خنجر پہ نقش ہے
یہ کس کا نام دست ستم گر پہ نقش ہے
بارش بھی آفتاب کا دامن نہ دھو سکی
کچھ گرد اب بھی دھوپ کے شہ پر پہ نقش ہے
تیرا ہی عکس رات کے آئینے میں اسیر
تیرا ہی خواب نیند کے بستر پہ نقش ہے
جس کو ترے لبوں کا تصور نہ دھو سکے
وہ تلخیٔ حیات بھی ساغر پہ نقش ہے
آنگن سے دستکوں کی صدا لوٹ آئے گی
ویرانیوں کا نام ہر اک گھر پہ نقش ہے
پانی کی یہ لکیر نہیں ہے جو مٹ سکے
شیشے کی داستان تو پتھر پہ نقش ہے
جکڑا ہوا ہے پچھلے جنم کے حصار میں
ماضی کا سانحہ دل اخترؔ پہ نقش ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.