اب ترے ہجر میں اک پل نہ گزارا جائے
اب ترے ہجر میں اک پل نہ گزارا جائے
یہ نہ ہو قیس ترا دشت میں مارا جائے
ان کے دل اور زباں نرم ہوا کرتے ہیں
دشت والوں کو محبت سے پکارا جائے
مجھ کو منزل پہ نہیں اور کہیں جانا ہے
مجھ کو منزل سے بہت دور اتارا جائے
زندگی ہے مرے محبوب اذیت والی
یہ تری زلف نہیں جس کو سنوارا جائے
جی تو کرتا ہے کہ آنکھوں میں مقید کر لوں
میری آنکھوں سے نہ محروم نظارا جائے
یہ جو اشکوں کا سمندر نظر آتا ہے اسے
آنکھ کی ساحلی پٹی پہ اتارا جائے
پھر بھی رہتی ہے کمی نوک پلک میں باقی
وہ غزل جیسا بدن جتنا سنوارا جائے
ان کے احسان زمانے پہ بہت ہیں جامیؔ
کوئی بھی پھل نہ درختوں سے اتارا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.