اب تو ہجوم یاس کی کچھ انتہا نہیں
اب تو ہجوم یاس کی کچھ انتہا نہیں
یعنی مجھے امید کا بھی آسرا نہیں
کب ہم سے بے دلوں پہ نگاہ جفا نہیں
ہم خوب جانتے ہیں کہ تو بے وفا نہیں
اے رشک پردہ سوز شکایت کی جا نہیں
وہ بزم ناز ہے دل بے مدعا نہیں
دکھلائے پھر خدا نہ وہ مایوسیوں کے دن
ہوتا تھا یہ خیال کہ ہے یا خدا نہیں
اللہ رے بے نیازیٔ آسودگان خاک
اس قرب پر کسی سے کوئی بولتا نہیں
آتی ہے ذرہ ذرہ سے آواز بازگشت
پھر بھی یہ کہہ رہا ہے ابھی کچھ کہا نہیں
وہ خود بھی دفن ہو گئی اہل وفا کے ساتھ
بے کار ڈھونڈھتا ہے جہاں میں وفا نہیں
ہے جلوہ ریز بزم تصور جمال یار
اے شوق دید اب یہ تغافل روا نہیں
جاتی ہے کوئی مجمع محشر پہ یاں نظر
وہ پردۂ ہجوم تمنا اٹھا نہیں
صدقے ترے کرم کے نہ دے زحمت سوال
کشکول ہے فقیر کا دست دعا نہیں
صیاد قید کر کے مجھے دیکھ لے ذرا
دل خوں نہ ہو تو بلبل خونیں نوا نہیں
محرومیوں سے ذوق ہے مجبوریوں سے عشق
میں کامیاب ہوں یہ مرا مدعا نہیں
وہ دیدہ ہائے شوق کہ دیکھیں ترا جمال
کس کا بہشت کچھ بھی انہیں دیکھتا نہیں
کیوں اس کے چومتے ہی نہ معراج ہو نصیب
بیخودؔ خدا کا ہاتھ ہے دست دعا نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.