اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
اب وہی حرف جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمن دیں راحت جاں ٹھہری ہے
ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو آج سر کوئے بتاں ٹھہری ہے
ہے وہی عارض لیلیٰ وہی شیریں کا دہن
نگہ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھہری ہے
وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی
ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھہری ہے
بکھری اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موج شمیم
دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے
دست صیاد بھی عاجز ہے کف گلچیں بھی
بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے
آتے آتے یوں ہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار
جاتے جاتے یوں ہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے
ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیضؔ گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
- کتاب : Nuskha Hai Wafa (Pg. 164)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.