اب ذرا سی بھی خوشی پہ یار دکھنے لگتے ہیں
اب ذرا سی بھی خوشی پہ یار دکھنے لگتے ہیں
مسکرا دینے سے بھی رخسار دکھنے لگتے ہیں
راہ الفت میں ملے ہر آبلوں کو سہ گیا
کیا دکھیں گے زخم اب خود خار دکھنے لگتے ہیں
چاہتا ہوں میں کہ تیرا نام ہر مصرعے میں ہو
ذکر سے تیرے مگر اشعار دکھنے لگتے ہیں
جی میں آتا ہے کہ تجھ پہ چھیڑ دوں کوئی غزل
یاد کچھ آتا ہے دل کے تار دکھنے لگتے ہیں
اس کو لگتا ہے کوئی شکوہ نہیں مجھ کو مگر
کچھ نہ کہہ سکنے سے لب ہر بار دکھنے لگتے ہیں
بات تو ہوگی نہیں پر دیکھنے آیا کرو
ورنہ اپنی قبر میں ہم یار دکھنے لگتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.