ابد کے طشت میں کچھ پھول اور ستارے لیے
ابد کے طشت میں کچھ پھول اور ستارے لیے
یہ میں ہوں دور سے آیا ہوا تمہارے لیے
عجب تھی ان سے ملاقات پر تپاک مری
وہ میرے خس کدے میں آ گئے شرارے لیے
دیار گریہ کی گلیوں میں ایسی پھسلن ہے
بشر گزرتے ہیں دیواروں کے سہارے لیے
بچھا کے ان کو میں چاہے جدھر اتر جاؤں
رواں ہوں ناؤ میں دریا کے دو کنارے لیے
بلندی سے گرے مضمون کی طرح ہے حیات
لڑھکتی پھرتی ہے لغزش کے استعارے لیے
ہزار صبح سفر ناشتے کی میز پہ تھی
میں گرم سیر ہوا نور کے حرارے لیے
نہ جانے ابر مرا کس طرف روانہ ہے
سیاہ رات کے پردے میں برق پارے لیے
خدا سے خوف زدہ اتنا کر دیا گیا تھا
کہ ہم نے سانس بھی دنیا میں ڈر کے مارے لیے
یہی تھی شب جو زمیں سے گئی تھی نم لے کر
اب آسماں سے چلی آ رہی ہے تارے لیے
بہت سی خود میں تماثیل جمع کر لی ہیں
کچھ اپنے واسطے کچھ خاص کر تمہارے لیے
میں ڈھونڈ لایا کہیں سے کنایہ فردا کا
کہیں سے گزرے ہوئے وقت کے اشارے لیے
سماع کے لیے سرگوشیاں اٹھا لایا
نظر کے واسطے فطرت سے کچھ نظارے لیے
سب ایک ساتھ کہیں لاپتہ ہوئے شاہدؔ
بلند کرنی ہے کس نے صدا ہمارے لیے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.