ابھی آئے تھے ابھی چل بسے مرنے والے
ابھی آئے تھے ابھی چل بسے مرنے والے
یوں سفر کرتے ہیں دنیا سے گزرنے والے
آفتیں ڈھاتے ہیں دنیا میں سنورنے والے
لوٹ لیتے ہیں زمانہ کو نکھرنے والے
صفت بوئے گل اس باغ جہاں سے گزرے
کیا سبک دوش گئے آپ پہ مرنے والے
آپ مٹ جائیں مگر رد نہ ہو سائل کا سوال
ہم تو ہیں قبر کا منہ خاک سے بھرنے والے
نام سے راہ عدم کے مجھے کیوں وحشت ہے
منہ دکھاتے نہیں دل لے کے مکرنے والے
دور ہی گھر ہیں گھر آنگن ہیں پری زادوں کے
آنکھوں میں پھرتے ہیں یہ دل میں اترنے والے
کشتیٔ عمر کنارے کے قریب آ پہنچی
بحر ہستی سے ہیں ہم پار اترنے والے
خوب دیکھی ہے اندھیری شب غم کی اکبرؔ
ہم نہیں تیرگیٔ قبر سے ڈرنے والے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.