ابھی ہے دھیان کہاں وصل کے فریضوں پر
ابھی ہے دھیان کہاں وصل کے فریضوں پر
ابھی وہ کاڑھتی پھرتی ہے دل قمیضوں پر
قیام کرتا ہوں اکثر میں دل کے کمرے میں
کہ جم نہ جائے کہیں گرد اس کی چیزوں پر
یہی تو لوگ مسیحا ہیں زندگانی کے
ہزار رحمتیں ہوں عشق کے مریضوں پر
کسی انار کلی کے خیال میں اب تک
غلام گردشیں ماتم کناں کنیزوں پر
جلا رہی ہے مرے بادلوں کے پیراہن
پھوار گرتی ہوئی ململیں قمیصوں پر
غزل کہی ہے کسی بے چراغ لمحے میں
شب فراق کے کاجل زدہ عزیزوں پر
کہ کس دیار میں رہنا ہے کس نے کتنے دن
مسافروں کے یہ لکھا گیا ہے ویزوں پر
وہ غور کرتی رہی ہے تمام دن منصورؔ
مرے لباس کی الجھی ہوئی کریزوں پر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.