ابھی سچ کا دیا جلتا کہاں ہے
ابھی سچ کا دیا جلتا کہاں ہے
ہوا کا رخ ابھی بدلا کہاں ہے
بہار دشت آرائی کا موسم
زمینوں پر ابھی اترا کہاں ہے
مسافر ہیں ہم ایسے قافلے کے
پتہ جس کو نہیں جانا کہاں ہے
غبار آشنائی اڑ رہا ہے
کوئی چہرہ نظر آتا کہاں ہے
سب اپنے بحر غم میں غوطہ زن ہیں
نشاط درد کا دریا کہاں ہے
پہاڑ اب آبشاریں رو رہے ہیں
یہ بادل ٹوٹ کر برسا کہاں ہے
انا زندہ اگر ہے آدمی میں
تو پھر یہ موت سے ڈرتا کہاں ہے
مری ہر شب مرا ہر دن سفر ہے
خدا معلوم اب رکنا کہاں ہے
عجب ہلچل مرے اندر مچی ہے
قیامت ہے مگر برپا کہاں ہے
بگولے بام و در سے پوچھتے ہیں
ہمارے رقص کا صحرا کہاں ہے
عجب بے خوابیوں میں عمر گزری
جسے سوچا اسے دیکھا کہاں ہے
دلوں میں ایک ربط باہمی ہے
ابھی یہ سلسلہ ٹوٹا کہاں ہے
گدایان محبت پوچھتے ہیں
ہمارا وہ سخی داتا کہاں ہے
کلاہ حرص کب رکھی ہے سر پر
قبائے کذب کو پہنا کہاں ہے
حدیث طاعت و آیات حق کو
کوئی اس دور میں سنتا کہاں ہے
شعار عجز و ذوق انکساری
یہ سکہ شہر میں چلتا کہاں ہے
میں دنیا کے لئے زندہ ہوں محسنؔ
مجھے خود خواہش دنیا کہاں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.