ابھی تو ربط کے آثار پائے جاتے ہیں
ابھی تو ربط کے آثار پائے جاتے ہیں
خیال ہی میں سہی پر وہ آئے جاتے ہیں
جو کیف بن کے زمانے پہ چھائے جاتے ہیں
وہ گیت ساز رگ جاں پہ گائے جاتے ہیں
فریب عشق پہ ہنستے ہیں جو وہ کیا جانیں
یہ دھوکے سوچ سمجھ کر ہی کھائے جاتے ہیں
ابھی امید ہے ایفائے عہد کی مجھ کو
ابھی سے تارے یہ کیوں جھلملائے جاتے ہیں
وہ آئے ہیں نہ کبھی آئیں گے یقیں ہے مگر
ہم اپنی بزم تصور سجائے جاتے ہیں
حریم ناز ہے یہ جلوہ گاہ طور نہیں
یہاں نظر نہیں دل آزمائے جاتے ہیں
وہ کہتے ہیں مرے اشعار سن کر اے نخشبؔ
غزل کی آڑ میں شکوے سنائے جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.