ابھی ضمیر میں تھوڑی سی جان باقی ہے
ابھی ضمیر میں تھوڑی سی جان باقی ہے
ابھی ہمارا کوئی امتحان باقی ہے
ہمارے گھر کو تو اجڑے ہوئے زمانہ ہوا
مگر سنا ہے ابھی وہ مکان باقی ہے
ہماری ان سے جو تھی گفتگو وہ ختم ہوئی
مگر سکوت سا کچھ درمیان باقی ہے
ہمارے ذہن کی بستی میں آگ ایسی لگی
کہ جو تھا خاک ہوا اک دکان باقی ہے
وہ زخم بھر گیا عرصہ ہوا مگر اب تک
ذرا سا درد ذرا سا نشان باقی ہے
ذرا سی بات جو پھیلی تو داستان بنی
وہ بات ختم ہوئی داستان باقی ہے
اب آیا تیر چلانے کا فن تو کیا آیا
ہمارے ہاتھ میں خالی کمان باقی ہے
- کتاب : LAVA (Pg. 103)
- Author : JAVED AKHTAR
- مطبع : RAJ KAMAL PARKASHAN (2012)
- اشاعت : 2012
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.