ابر ہوں دھوپ ہوں صحرا ہوں سمندر ہوں میں
ابر ہوں دھوپ ہوں صحرا ہوں سمندر ہوں میں
مختلف روپ ہیں میرے کہ سخنور ہوں میں
دھوپ نکلے گی تو ان کا بھی بھرم ٹوٹے گا
جن کی نظروں میں ابھی موم کا پیکر ہوں میں
کسی دامن کے مقدر کو جگانے کے لئے
وقت کی پلکوں پہ ٹھہرا ہوا گوہر ہوں میں
تو جو چھو لے تو خد و خال نمایاں ہو جائیں
ورنہ دھندلایا ہوا خواب سا منظر ہوں میں
دیکھنا جب کسی معمار کے ہاتھ آؤں گا
آج دیوار سے اکھڑا ہوا پتھر ہوں میں
خود شناسوں نے ابھی مجھ کو کھنگالا ہی نہیں
ورنہ ہر رنگ تلاطم کا شناور ہوں میں
جس پہ تحریر بھی تقریر بھی نازاں ہے نذیرؔ
ایسا شہباز قلم ایسا سخنور ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.