ابر کا ماہتاب کا بھی تھا
اک زمانہ شراب کا بھی تھا
کچھ طبیعت بھی اپنی مائل تھی
کچھ جھمیلا شباب کا بھی تھا
رات بھر تیری چاندنی اور دن
یاد کے آفتاب کا بھی تھا
تیری شہرت کے خاص رنگوں میں
اک مرے انتخاب کا بھی تھا
چاندنی میں ترے بدن کا نکھار
حسن کچھ ماہتاب کا بھی تھا
موسم وصل تیری زلفوں میں
آستانہ گلاب کا بھی تھا
کچھ مرے شوق کی تجلی تھی
کچھ سرکنا نقاب کا بھی تھا
تند لہروں سے کیا شکایت ہو
جسم نازک حباب کا بھی تھا
عمر زندان جبر میں گزری
اور ابھی دن حساب کا بھی تھا
کچھ ترا انتظار تھا اور کچھ
مئے گل رنگ و ناب کا بھی تھا
یہ سزا و جزا کی بات نہ تھی
ڈر سوال و جواب کا بھی تھا
تم اگر ڈھونڈتے تہ دل تک
راستہ انقلاب کا بھی تھا
جس میں تم بس گئے کبھی وہ گھر
دل خانہ خراب کا بھی تھا
ہم تو ٹھہرے کشیدہ سر لیکن
حکم حاکم عتاب کا بھی تھا
وقت کے چور آئنے میں منیرؔ
عکس چشم پر آب کا بھی تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.