ابر پھر سے اٹھا جھوم کر بارشوں کو لپیٹے ہوئے
ابر پھر سے اٹھا جھوم کر بارشوں کو لپیٹے ہوئے
لوٹ آئے پرندے سبھی بال و پر کو سمیٹے ہوئے
زندگی بھر مخالف رہے موت نے اک جگہ کر دیا
اے زمیں تیری آغوش میں دوست دشمن ہیں لیٹے ہوئے
اپنے اعمال کی ہے سزا حکمرانی فقیری بنی
یاد ہیں وہ خزانے سبھی اپنے ہاتھوں سمیٹے ہوئے
میری جھولی میں بیٹے نہیں پھر بھی خوش ہوں میں یہ سوچ کر
مصطفیٰ کے نسب کے امیں فاطمہؓ کے ہی بیٹے ہوئے
ہر قیامت گزر ہی گئی خوش رہوں یا کہ غمگین ہوں
آج منزل پہ پہنچا مگر اپنی ہستی سمیٹے ہوئے
شاہدؔ انور ترے حکم پر ہاتھ پھیلائے بیٹھا ہے یوں
چند اشکوں کی سوغات اور کچھ دعائیں سمیٹے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.