ابر ویراں جزیرے پہ جھکتا ہوا چاند تاروں پہ زلفیں گراتے ہوئے
ابر ویراں جزیرے پہ جھکتا ہوا چاند تاروں پہ زلفیں گراتے ہوئے
گھاٹ پر ایک کشتی تھی ٹوٹی ہوئی پانیوں پر کنول سرسراتے ہوئے
چاند امشب دبے پاؤں چلتا ہوا زرد اشجار کی شاخ پر آئے گا
جل پری جھٹ سے پانی میں چھپ جائے گی صفحۂ آب پر دل بناتے ہوئے
ساربانوں کے اٹھتے قدم رک گئے اک تمنا کی حدت سے دل جل اٹھا
دشت احساس میں آگ سی لگ گئی مڑ گئی اونٹنی بلبلاتے ہوئے
بوڑھا برگد کہ جس کی جھکی شاخ پر کتنی نسلوں سے ہیں کچھ پرندوں کے گھر
روز گنتا ہوں اس کی جٹاؤں کے بل گھر کو آتے ہوئے گھر سے جاتے ہوئے
ڈوبنے کے ارادے سے آیا مگر دیر تک پانیوں کو ہی تکتا رہا
ساحلوں کی ہوا جانے کیا کہہ گئی کان میں چل دیا مسکراتے ہوئے
رات مہکی ہوئی چاندنی کو لیے آفتابی قبیلے کے گھر آئی تھی
زرد خیموں کے اطراف پکڑی گئی چوبداروں سے دامن چھڑاتے ہوئے
شہر کے پار جنگل کی دہلیز پر چند خونی بلاؤں کا استھان ہے
خشک تالاب پر جو بھی آ کے رکا آ لیا تیر نے سنسناتے ہوئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.