ادائے حسن سے باہر نکل بھی سکتا تھا
ادائے حسن سے باہر نکل بھی سکتا تھا
وہ دیکھ کر مرے آنسو پگھل بھی سکتا تھا
شجر نے چھاؤں برابر رکھی مرے اوپر
وگرنہ دھوپ کا سورج نگل بھی سکتا تھا
اٹھائے پھرتا میں کب تک تصورات کا بوجھ
ترا خیال میرے ہوش چھل بھی سکتا تھا
اسے جہان کے رنگوں نے کھا لیا ورنہ
میں اس کے واسطے دنیا بدل بھی سکتا تھا
طنابیں رشتوں کی ٹوٹیں گی ہم کو تھا معلوم
مگر یہ مرحلہ کچھ وقت ٹل بھی سکتا تھا
چرائے وقت سے میں نے کئی حسیں لمحے
مجھے یہ وقت کا اجگر نگل بھی سکتا تھا
اسی کے ہاتھ میں تھا میرا فیصلہ ورنہ
مرا حریف گواہی بدل بھی سکتا تھا
سفر کا درد بھلا کوئی کب تلک جھیلے
سفر حیات کا آہستہ چل بھی سکتا تھا
الجھ کے رہ گئی گتھی مری کہانی کی
وہ ایک لمحہ جو کچھ دیر ٹل بھی سکتا تھا
طلسم ٹوٹ نہ پایا گمان کا ورنہ
درخت دل میں محبت کا پھل بھی سکتا تھا
بدل بھی سکتا ہے غمگیں صداؤ کا آہنگ
وہ چاہتا تو مرا دل بہل بھی سکتا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.