عدو کمبخت کو سودا ہے کچھ ایسا جدائی کا
عدو کمبخت کو سودا ہے کچھ ایسا جدائی کا
لئے سر پر پھرا کرتا ہے ڈھانچہ چارپائی کا
کبھی تم مجھ کو دھر پٹکو کبھی میں تم کو دے ماروں
مزا اس وقت ہے اے جان جاں اس ہاتھا پائی کا
یہ کیا پڑھ پڑھ کے دم کرتے ہو چپکے سے حسینوں پر
اٹھا ہی چاہتا ہے شیخ پردہ پارسائی کا
سر محفل رقیب رو سیہ کا ٹیٹوا پکڑا
مچایا شور بزدل نے دہائی کا تہائی کا
تمہیں جب میں نے دھر ڈپٹا تو کوئی بھی نہیں بولا
بہت ہی دم بھرا کرتے تھے اعدا آشنائی کا
میں دل پر چوٹ کھاؤں ان پری رویوں کے ہاتھوں سے
مجھے نسخہ اگر کوئی بتا دے مومیائی کا
سر محفل ہر اک سے بے جھجھک آنکھیں لڑاتا ہے
اٹھایا ہے بت پر فن نے کیا بیڑا ڈھٹائی کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.