افسانۂ دل کیا تم سے کہیں کچھ شاد بھی کچھ ناشاد بھی ہے
افسانۂ دل کیا تم سے کہیں کچھ شاد بھی کچھ ناشاد بھی ہے
یہ فکر و نظر کا قیدی ہے اس قید میں یہ آزاد بھی ہے
اس نسبت عام کی دنیا میں اب کس کی شکایت کس سے کریں
کچھ ہم بھی ہیں برباد جہاں کچھ ہم سے جہاں برباد بھی ہے
افسوس تسلسل زلف و رخ اس شام و سحر نے توڑ دیا
بے ربط سا ہے اب قصۂ دل کچھ بھول گئے کچھ یاد بھی ہے
اے کاش نگاہ شوق تجھے کچھ اور سلیقہ مل جاتا
کچھ زینت حسن تو ہوتی ہے کچھ سعیٔ نظر برباد بھی ہے
اس دل کی تباہی میں شامل کچھ ان کی نگاہ لطف بھی ہے
کچھ اپنے مزاج و طبیعت کی مایوسی و غم افتاد بھی ہے
بے شبہ شفیقؔ یہ تیری غزل اس محو طرب تک پہنچے گی
یہ سوز میں ڈوبا ساز حسیں اک نغمہ بھی ہے فریاد بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.