افسوس کیا جو ہم بھی تمہارے نہیں رہے
افسوس کیا جو ہم بھی تمہارے نہیں رہے
تم بھی کسی کے ہو کے ہمارے نہیں رہے
اب شکوۂ فریب محبت نہ کیجیے
ہم بھی کسی کی آنکھ کے تارے نہیں رہے
یہ حسن اتفاق ہے پھر مل گئے ہیں وہ
یہ اور بات ہے کہ ہمارے نہیں رہے
تم بھی تعلقات کی حد سے گزر گئے
ہم بھی کسی کو جان سے پیارے نہیں رہے
جب سے چلے گئے وہ بہاروں کو لوٹ کر
حسن بہار کے وہ نظارے نہیں رہے
ہم جن کے ہو گئے تھے زمانے کو چھوڑ کر
قسمت تو دیکھیے وہ ہمارے نہیں رہے
شعر و سخن کی محفلوں کی رونقیں گئیں
چھجے نہیں رہے وہ چوبارے نہیں رہے
میری مراد کا ہے سفینہ بھی نامراد
طوفان رک گیا تو کنارے نہیں رہے
وہ چشم شرمگیں کی فسوں کاریاں گئیں
وہ چشم سرمگیں کے اشارے نہیں رہے
شالوں میں عشق کے بھی وہ چنگاریاں نہیں
بس آگ رہ گئی ہے شرارے نہیں رہے
جاتے ہوئے وہ صبر و سکوں ساتھ لے گیا
بہتے ہوئے سکون کے دھارے نہیں رہے
رعنائی جمال گل افشاں کی خیر ہو
اب حسن دل ربا کے نظارے نہیں رہے
دل کو تھا ابتدائے محبت میں جن پہ ناز
وہ اپنی زندگی کے سہارے نہیں رہے
بے نور کر گیا کوئی دنیا کو سوزؔ کی
وہ چاند چھپ گیا وہ ستارے نہیں رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.