اگر دست جنوں مصروف احساں اور ہو جاتا
اگر دست جنوں مصروف احساں اور ہو جاتا
وقار دامن و جیب و گریباں اور ہو جاتا
مقدر سے مری وحشت کا ساماں اور ہو جاتا
گلستاں اور ہو جاتا بیاباں اور ہو جاتا
جو اہل مصر دامن تھام لیتے حسن یوسف کا
نہ کچھ قیدی بدل جاتا نہ زنداں اور ہو جاتا
طبیعت بھی اگر آسودۂ تیر ستم ہوتی
گمان اندمال زخم پیکاں اور ہو جاتا
جو مسجد سے نکل کر آپ سوئے مے کدہ آتے
جناب شیخ لطف دین و ایماں اور ہو جاتا
جنون عشق کی تکمیل امکاں میں اگر ہوتی
تو دامن اور ہو جاتا گریباں اور ہو جاتا
ٹپکتا شام فرقت ساتھ اشکوں کے لہو دل کا
یہ احساں تیرا مجھ پر چشم گریاں اور ہو جاتا
کمی کیوں کی بہت نزدیک تھی منزل گریباں کی
رسا کمبخت اپنا دست امکاں اور ہو جاتا
بیابان محبت میں نہ ہوتی کشمکش اتنی
اگر آباد دیوانوں سے زنداں اور ہو جاتا
رگ گردن اگر مسعودؔ تیغ کند سے کٹتی
مرے قاتل کا مجھ پر بار احساں اور ہو جاتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.