اگر ہو ظرف سے خالی تو کیا رکھا ہے دریا میں
اگر ہو ظرف سے خالی تو کیا رکھا ہے دریا میں
سمندر کو بھی میں نے ڈوبتے دیکھا ہے قطرہ میں
اجالے ڈھونڈنے والے اجالے ڈھونڈ لیتے ہیں
اندھیرا ہے مگر کچھ روشنی اب بھی ہے دنیا میں
جو حائل راستے میں ہیں وہ پربت ڈوب جائیں گے
ترے غم کے سمندر میں مرے آنسو کے دریا میں
ہزاروں پھول میں ہم بھی تو ہیں اک پھول ہی لیکن
ہمارے بعد یہ خوشبو نہ مل پائے گی دنیا میں
بدن ساگر میں اتریں کشتیاں کیا میری آنکھوں کی
تلاطم اور بڑھتا جا رہا ہے موج دریا میں
ستارے چاند سورج کہکشاں بھی خوب صورت ہیں
مگر کچھ بات ہے جانم ترے حسن سراپا میں
فہیمؔ ان کو مرا طرز بیاں اچھا نہیں لگتا
روایت سانس لیتی ہے مرے اشعار تازہ میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.