اگرچہ دشوار تھا مگر زیر کر لیا تھا
اگرچہ دشوار تھا مگر زیر کر لیا تھا
انا کا رستہ سہل سمجھ کر جو سر لیا تھا
وہ کہکشاؤں کی حد سے آگے کہیں بسا ہے
طلب میں جس کی زمیں پہ بوسیدہ گھر لیا تھا
گلوں کی چاہت میں ایک دن کیا بچھایا ہوگا
کہ ہم نے کانٹوں سے اپنا دامان بھر لیا تھا
بڑھایا اس نے جو گرم جوشی سے ہاتھ یارو
نہیں تھا مسلک اگرچہ نذرانہ پر لیا تھا
اسی کا بخشا ہوا تھا سب کچھ تو دیر کیسی
بس اک اشارے پہ کاسۂ جان دھر لیا تھا
دل شکستہ کی مدتوں تک خبر نہ آئی
کھلا کہ مٹھی میں تو نے اے فتنہ گر لیا تھا
عدو نے چالوں سے چت کیا ہے رشید حسرتؔ
وگرنہ ہم نے بھی اسپ تو نامور لیا تھا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.