عہد صد مصلحت اندیش نبھانا پڑے گا
عہد صد مصلحت اندیش نبھانا پڑے گا
مسکرانے کے لئے غم کو بھلانا پڑے گا
جانتے ہیں کہ اجڑ جائیں گے ہم اندر سے
مانتے ہیں کہ تمہیں شہر سے جانا پڑے گا
آمد فصل بہاراں پہ کوئی جشن تو ہو
دوستو دل پہ کوئی زخم کھلانا پڑے گا
چشم بد دور یہی اک مرا سرمایہ ہے
تیری یادوں کو زمانے سے چھپانا پڑے گا
تمہیں جانا ہے چلے جاؤ مگر شرط یہ ہے
کہ بلا ناغہ تمہیں خواب میں آنا پڑے گا
خود کو پہچان نہیں پائیں گے چہروں والے
انہیں آئینۂ اوقات دکھانا پڑے گا
نظر انداز بھی کر سکتے ہو اخلاص مرا
یہ کوئی قرض نہیں ہے جو چکانا پڑے گا
شاعری ہو تو نہیں سکتی کبھی تیرا بدل
کیا کریں دل تو کہیں اور لگانا پڑے گا
تھک نہ جائے وہ کہیں ہم پہ ستم کرتے ہوئے
یاسرؔ اس کا بھی ہمیں ہاتھ بٹانا پڑے گا
- کتاب : Ghazal Bataay Gi (Pg. 17)
- Author : Ali Yasir
- مطبع : Ali yasir, Islamabad, Pakistan (2016)
- اشاعت : 2016
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.