اہل دیں کی روش تنگ سے بیزار ہوں میں
اہل دیں کی روش تنگ سے بیزار ہوں میں
یہ گنہ ہے تو سزا دو کہ گنہ گار ہوں میں
رک نہیں پاتی زباں میری مثال سقراط
کاسۂ زہر کا دنیا سے طلب گار ہوں میں
ارتقا میں مرے کتنے ہی دماغ آئے کام
جس کی بنیاد سروں پر ہے وہ مینار ہوں میں
جس سے ہوتے ہیں یتیموں کے خزانے محفوظ
آج اک ایسی ہی گرتی ہوئی دیوار ہوں میں
صرف رندی ہی کو دنیا میں نہیں میری تلاش
پارسائی کو بھی اس بزم میں درکار ہوں میں
جس کے پھولوں کے نصیبوں میں ہیں گلچیں کے ستم
دوستو صحن میں عالم کے وہ گلزار ہوں میں
فاش کرتا ہوں زمانے میں ریا کے پردے
اور یہ بھی ہے حقیقت کہ ریاکار ہوں میں
زہد پر ناز کیا کرتا تھا کل تک لیکن
آج اک رند خرابات قدح خوار ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.