اے دوست جدائی کا اب کوئی مداوا دے
اے دوست جدائی کا اب کوئی مداوا دے
یا آتش ہجراں کو کچھ اور بھی بھڑکا دے
اے بحر سخا آخر کب تک یہ غلط بخشی
صحرا کو ملے قطرہ اور ذرے کو دریا دے
وہ غنچہ دہن بولے کچھ منہ سے کہ مت بولے
اے باد صبا میرا پیغام تو پہنچا دے
انگور کا رس پی کر تسکین نہیں ہوتی
تپتے ہوئے ہونٹوں سے تپتی ہوئی صہبا دے
آغاز محبت کیا تمہید خرابی ہے
اے ترک جفا پیشہ ہاں کچھ تو اشارا دے
ناکام تمنا سے تو کام کی باتیں کر
اے حسن بہانہ جو مت کل کا بھلاوا دے
ہم عشق کے ماروں کے انداز نرالے ہیں
دیکھو تو بہت الجھے سمجھو تو بہت سادے
اس وعدۂ فردا کا کیا خاک یقیں آئے
ہر صبح شب غم کو جو اور بڑھاوا دے
نقویؔ جسے خود اپنی نظروں پہ نہ ہو قابو
گستاخ نگاہی کی وہ تجھ کو سزا کیا دے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.