اے فلک مجھ کو مکرنا ہے مکر جاتا ہوں
اے فلک مجھ کو مکرنا ہے مکر جاتا ہوں
اب زمیں کو مری حاجت ہے اتر جاتا ہوں
روکنے والے مجھے روک نہیں پاتے ہیں
میں تو دریا ہوں بہرحال گزر جاتا ہوں
مجھ سے کہنے لگا الزام مجسم ہو کر
میں تو اکثر کسی معصوم کے سر جاتا ہوں
دھوپ نے ضرب لگائی ہے مجھے ایسی کہ میں
چھاؤں سے آنکھ ملاتے ہوئے مر جاتا ہوں
اے غزل حرمت دستار پہ حرف آئے گا
میں اگر سرپھرے زردار کے گھر جاتا ہوں
میں تو سونا ہوں نہیں اس میں کوئی شک لیکن
ہجر میں دھول کی مانند بکھر جاتا ہوں
اسقدر نور محبت ہے مری آنکھوں میں
مجھ کو بس تو نظر آتا ہے جدھر جاتا ہوں
صرف حکمت کے سبب ہوتا ہے ایسا زاہدؔ
کون کہتا ہے کہ میں ڈر کے ٹھہر جاتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.