اے حضرت عیسیٰ نہیں کچھ جائے سخن اب
اے حضرت عیسیٰ نہیں کچھ جائے سخن اب
وہ آ گئے رکھوائیے تہہ کر کے کفن اب
سینچا گیا پھولا ہے نئے سر سے چمن اب
اشکوں نے کئے سبز مرے داغ کہن اب
او شوق اسیری کھلی گیسو کی شکن اب
ترسیں گے قفس کے لئے مرغان چمن اب
خاموشی نے معدوم کیا اور دہن اب
تم ہی کہو باقی رہی کیا جائے سخن اب
یاران وطن کو ہے غریبوں سے کنارہ
غربت کا تقاضا ہے کرو ترک وطن اب
دیرینہ ستم کش ہوں زمانہ میں ازل سے
کیا جور نکالے گا نئے چرخ کہن اب
سن لیجئے کچھ قصۂ بیتابیٔ دل کو
جو جی میں ہو کہہ لیجئے پھر مشفق من اب
سیماب بنایا تپ ہجراں نے جگر کو
دل ٹھہرنے دیتی نہیں سینہ کی جلن اب
بن بن کے سنورتے ہیں بگڑ جاتے ہیں بن کر
نکلا ہے نئی ساخت کا بے ساختہ پن اب
چلتے سر بازار ہو غیروں کو پرکھتے
بٹا نہ لگائے کہیں یہ چال چلن اب
زنجیر مری توڑ دی اے جوشش وحشت
پھر سر پہ چڑھا چاہتا ہے نجد کا بن اب
آخر کوئی حد بھی تری اے دوری غربت
مایوس ہوئے جاتے ہیں یاران وطن اب
پھر سینہ میں پیکاں نہ سمایا ہو کسی کا
کیا بات ہے کھلتے نہیں زخموں کے دہن اب
کیا مصر کے یوسف کے کوئیں جھانک لئے ہیں
دکھلا دو زلیخا کو ذرا چاہ ذکن اب
ہنگامۂ محشر میں خموشی ہے کہاں کی
سننے کا نہیں کوئی یہاں عذر دہن اب
کیا رخ پہ بہار آئی نئے سبزۂ خط سے
تب غیرت گل تھے تو ہوئے رشک چمن اب
مدت سے گیا قیس ستم کش کا زمانہ
پیدا تو کرے مجھ سا کوئی چرخ کہن اب
پہنچا نہ کبھی کان تلک نالۂ مجنوں
چلاؤں اگر گونج اٹھے نجد کا بن اب
کیا فکر ہے اے شعلہؔ پیو بادۂ رنگیں
ڈالو بھی کہیں بھاڑ میں یہ رنج و محن اب
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.