اے کاش ایک دن خود سے ہو گفتگو
اے کاش ایک دن خود سے ہو گفتگو
مدت سے ہے مجھے اپنی ہی جستجو
خطرے میں پڑ گئی اب دل کی آبرو
اک دھند کرب کی چھائی ہے چار سو
سب ختم کر دئے جس سے تعلقات
کرتا ہے رات دن وہ میری گفتگو
میرے قریب تم آنا نہ بھول کر
جھلسا نہ دے تمہیں میرے بدن کی لو
جس سے بھی بات کی اس کو لگائے زخم
پھر بھی نہ ہو سکا میرا کوئی عدو
اک آبلہ قدم گزرا ہے شاید آج
زخمی ہیں راستے پتھر لہو لہو
للکار کر مجھے میدان جنگ سے
پیچھے وہ ہٹ گیا آیا نہ دو بدو
کتنا عجیب یہ میرا تضاد ہے
ٹھنڈا مزاج ہے اور گرم ہے لہو
ہو کر نہ بے جھجک راہوں میں گھومنا
پھرتے ہیں دن میں بھی آسیب کو بہ کو
نجمیؔ کے قلب کا عالم عجیب ہے
شہر حیات میں مرنے کی آرزو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.