اے کاش کوئی آئے خریدار کی طرح
اے کاش کوئی آئے خریدار کی طرح
اپنا بھی دل ہے مصر کے بازار کی طرح
جنگل کی آگ سے وہ کسی طور کم نہیں
جو بھی زبان چلتی ہے تلوار کی طرح
کل تک جو شہریار تھا اور با وقار تھا
اب جی رہا ہے زندگی نادار کی طرح
سب دیکھتے ہیں آپ کے اعمال رات دن
کیجے نہ بات صاحب کردار کی طرح
گزرا ہے ہم پہ بارہا عالم جدائی کا
جاگے ہیں ہم بھی دیدۂ بے دار کی طرح
کہنے کو غم گسار ہیں اس شہر میں بہت
ملتا نہیں مگر کوئی غم خوار کی طرح
شاید ہمارے شہر کا موسم خراب ہے
جس کو بھی دیکھو چلتا ہے بیمار کی طرح
دو پل سکوں بہت ہے مسافت میں دوستو
وہ مہرباں ہیں سایۂ دیوار کی طرح
کہتے ہیں لوگ اس کے ہوئے ولولے تمام
جو جی رہا تھا زندگی زردار کی طرح
ایک ایک قطرہ خوں کا فراز صلیب سے
برسا ہے دل پہ ابر گہر بار کی طرح
زخموں کی فصل اپنے بدن میں سمیٹ کر
دھرتی کو کر گیا وہ سمن زار کی طرح
اس سے حساب زندگی مانگے گا کون شوقؔ
جیتا رہا جو شہر میں نادار کی طرح
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.