اے خدا ایسا کرشمہ ہو جائے
اے خدا ایسا کرشمہ ہو جائے
دل کا صحرا مرا دریا ہو جائے
آنسوؤ تم ذرا محتاط رہو
عشق کا راز نہ افشا ہو جائے
دور ہو جائے گی برسوں کی تھکن
اس کی زلفوں کا جو سایا ہو جائے
سر جہاں فرط جنوں میں رکھ دوں
وہ زمیں دامن کعبہ ہو جائے
زخم بخشے ہیں جو اس نے مجھ کو
کون چاہے گا کہ اچھا ہو جائے
اس کا پردے ہی میں رہنا اچھا
پردہ اٹھ جائے تو کیا کیا ہو جائے
ان کی ہر بات سنی جاتی ہے
میں جو بولوں تو تماشا ہو جائے
پھر اٹھی جھوم کے مدہوش گھٹا
آج ساقی سے تقاضا ہو جائے
آدمی ہے تو خطا بھی ہوگی
آدمی کیسے فرشتہ ہو جائے
اس کے عیبوں کو چھپا لے اے شادؔ
کیا ضروری ہے کہ چرچا ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.