اے پری زاد کچھ تو بتا یہ بھی کیا قریۂ قاف کا بھید ہے
اے پری زاد کچھ تو بتا یہ بھی کیا قریۂ قاف کا بھید ہے
تیری کومل ہتھیلی پہ سیل فون روشن ہے یا جام جمشید ہے
چشم حیراں میں آشفتگی سے مرادوں بھری رات ڈھلنے لگی
اک ستارہ چمکتا ہے یا آسماں کی ردا میں کوئی چھید ہے
کوہ البرز پر رن پڑا جانے کب سے ہے ویراں بہشت بریں
سیر کے واسطے اب فقط باغ شیراز ہے تخت جمشید ہے
وصل کی بارشوں میں گھنا بید مجنوں کہ سر سبز و شاداب تھا
ہجر میں اب تو لاغر بدن جیسے کوئی لرزتا ہوا بید ہے
نسل در نسل ملتے کہاں خال و خد چشم و رخسار کے سلسلے
پر یہ قدرت کی مشاطگی جینیاتی کرامت کا اک بھید ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.