اے سیم تن تجھے گل پیرہن کہا جائے
کہ آفتاب کی پہلی کرن کہا جائے
حکومتیں کہ جہاں شہ گروں کا غلبہ ہو
اس اقتدار کو دار و رسن کہا جائے
اذیتوں کا صلہ ہے مہک اٹھیں گلیاں
ہمارے زخم کو مشک ختن کہا جائے
جسے چھوا ہے نہ دیکھا نگاہ باطن نے
اسے خیال گماں یا بدن کہا جائے
یہ روشنی کا نگر صبح شام کیا معنی
برہنہ تن کو جہاں پیرہن کہا جائے
ہمارے عہد کے صیاد ہم سے چاہیں گے
کہ قتل گاہ کو اپنا چمن کہا جائے
لگا دے آگ جو خاموش آبگینوں میں
اسے ہمارا ہی طرز سخن کہا جائے
وہ جن کا قد سے بھی اونچا انا کا پیکر ہو
وہ چاہتے ہیں انہیں انجمن کہا جائے
ہزار رنگ نصیبوں میں باندھ لائے جو
اسے جہاں میں مگر کوہکن کہا جائے
وہ روشنی کی طلب میں وہاں تلک پہنچے
جہاں پہ دھوپ کو سایہ فگن کہا جائے
بجھا کے رکھ دے جو جلتے ہوئے چراغوں کو
تو کیا اسے بھی ہوا کا سخن کہا جائے
مشقتیں جو عیاں ہوں اداس آنکھوں سے
انہیں خمار کہیں یا تھکن کہا جائے
نکھر گیا ہو کوئی حسن جب پسینے میں
اسے تو صبح کی پہلی کرن کہا جائے
ہجوم فکر میں دل کو لہو لہو کر لیں
غزل میں تب کہیں رمز سخن کہا جائے
حقیقتیں کہ جو دیکھی ہیں کتنی آنکھوں نے
نظرؔ کہیں تو اسے سوئے ظن کہا جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.