عیب جو مجھ میں ہیں میرے ہیں ہنر تیرا ہے
عیب جو مجھ میں ہیں میرے ہیں ہنر تیرا ہے
میں مسافر ہوں مگر زاد سفر تیرا ہے
تیشہ دے دے مرے ہاتھوں میں تو ثابت کر دوں
سینۂ سنگ میں خوابیدہ شرر تیرا ہے
تو یہ کہتا ہے سمندر ہے قلمرو میں مری
میں یہ کہتا ہوں کہ موجوں میں اثر تیرا ہے
تو نے روشن کئے ہر طاق پہ فرقت کے چراغ
جس میں تنہائیاں رہتی ہیں وہ گھر تیرا ہے
سنگ ریزے تو برستے ہیں مرے آنگن میں
جس کا ہر پھل ہے رسیلا وہ شجر تیرا ہے
میں تو ہوں سنگ ہدایت کی طرح استادہ
ہاں مگر ضابطۂ راہ گزر تیرا ہے
لاکھ بے مایہ ہوں اتنا بھی تہی دست نہیں
میری آنکھوں کے صدف میں یہ گہر تیرا ہے
مجھ کو تنہائی سے رغبت تجھے ہنگاموں سے پیار
ظلمت شب ہے مری نور سحر تیرا ہے
ڈوبتے ہیں جو سفینے یہ خطا کس کی ہے
تہہ نشیں موج مری ہے تو بھنور تیرا ہے
رمزؔ ہر تہمت نا کردہ سے منسوب سہی
یہ مگر سوچ لے اس میں بھی ضرر تیرا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.