ایسا نہیں کہ تجھ سے شکایت نہیں مجھے
ایسا نہیں کہ تجھ سے شکایت نہیں مجھے
خود کو گنوا کے تیری ضرورت نہیں مجھے
اس ڈگمگاتی ناؤ پہ ساحل کی آرزو
آئی سمجھ میں اب بھی سیاست نہیں مجھے
پتھراؤ ہو رہا ہے مری سمت اس لیے
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
اب میں جو ملتجی ہوں تو وہ ملتفت نہیں
کہتے ہیں بار بار کہ فرصت نہیں مجھے
کچھ مجھ میں بزدلی کے عناصر ضرور ہیں
اس سے مراد اپنی شرافت نہیں مجھے
بہلا رہا ہوں خود کو غم روزگار سے
کیا اب جنون شوق و محبت نہیں مجھے
سب کچھ مفارقت کی رعایت سے کہہ دیے
کہتے تھے جو کہ صبر و قناعت نہیں مجھے
مطلب پرست لوگوں میں گزری ہے ایک عمر
بے جا کرم پہ آپ کے حیرت نہیں مجھے
مکر و فریب و طعنہ و تہمت سے دور ہوں
مشہور یہ ہے خواہش جنت نہیں مجھے
ملتا ہوں اک توارد خاطر کو شانہ کش
مقصود اس سے دل کی حفاظت نہیں مجھے
شمع امید وصل منور ہے سرفرازؔ
طول شب فراق سے وحشت نہیں مجھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.