ایسے رکھتی ہے ہمیں تیری محبت زندہ
ایسے رکھتی ہے ہمیں تیری محبت زندہ
جس طرح جسم کو سانسوں کی حرارت زندہ
شوق کی راہ میں اک ایسا بھی پل آتا ہے
جس میں ہو جاتی ہے صدیوں کی ریاضت زندہ
روز اک خوف کی آواز پہ ہم اٹھتے ہیں
روز ہوتی ہے دل و جاں میں قیامت زندہ
اب بھی انجان زمینوں کی کشش کھینچتی ہے
اب بھی شاید ہے لہو میں کہیں ہجرت زندہ
طاعت جبر بہت عام ہوئی جاتی تھی
ایک انکار نے کی رسم بغاوت زندہ
ہم تو مر کر بھی نہ باطل کو سلامی دیں گے
کیسے ممکن ہے کہ کر لیں تری بیعت زندہ
ہم میں سقراط تو کوئی نہیں پھر بھی شہبازؔ
زہر پی لیتے ہیں رکھتے ہیں روایت زندہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.