ایسی ٹھہری ہے رت خزاؤں کی
ایسی ٹھہری ہے رت خزاؤں کی
ہم کو حسرت رہی ہے چھاؤں کی
دل کی دنیا اجاڑ کر انساں
کھوج کرتا پھرے خلاؤں کی
بام پر دیکھ کر پرندوں کو
یاد آئی ہے پھر سے گاؤں کی
گولیوں کی صدائیں سنتے ہی
دھڑکنیں تھم گئی ہیں ماؤں کی
کس کو فرصت کہ داستاں لکھے
سسکیاں لے رہی ہواؤں کی
آیت وصل دم کرو اس پر
لے کے مٹی کسی کے پاؤں کی
دل کے گنبد میں قید ہے آصفؔ
گونج بھولی ہوئی صداؤں کی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.