ایسی الجھن ہو کبھی ایسی بھی رسوائی ہو
ایسی الجھن ہو کبھی ایسی بھی رسوائی ہو
دل کے ہر زخم میں دریاؤں سی گہرائی ہو
یوں گزرتے ہیں ترے ہجر میں دن رات مرے
جان پہ جیسے کسی شخص کے بن آئی ہو
پھول کی مثل سبھی داغ مہکنے لگ جائیں
کاش ایسا بھی کہیں طرز مسیحائی ہو
کیسا منظر ہو کہ سر پھوڑتے دیوانوں کے
سنگ ہو ہاتھ میں اور سامنے ہرجائی ہو
وہ سخن ور جو سخن ور ہیں حقیقی صاحب
ایسے لوگوں کا کبھی جشن پذیرائی ہو
ہے مزاج اپنا الگ اپنی طبیعت ہے جدا
کیسے اس دور کے لوگوں سے شناسائی ہو
چائے کا کپ ہو نبیلؔ اور کسی کی یادیں
رات کا پچھلا پہر عالم تنہائی ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.