عجب فقیر ہو تاج جہانیاں تم ہو
عجب فقیر ہو تاج جہانیاں تم ہو
حصیر خاک پہ مسجود آسماں تم ہو
ہجوم نور میں کھویا ہوا ہے میرا وجود
سوائے روح وہاں کیا ہوں میں جہاں تم ہو
دروں نگاہ کو تنہا روی کا وہم نہیں
ورائے پردہ تو سرخیل کارواں تم ہو
حجاب مانع اشکال خیرگی ٹھہرا
نہاں ہوئے ہو تو کچھ اور بھی عیاں تم ہو
جنوں ہزار زباں ہے مگر کسے معلوم
کہ جوہر سخن و حاصل بیاں تم ہو
کبھی بلا کا تحیر کہاں نہیں ہو تم
کبھی تجسس زہرہ شکن کہاں تم ہو
یہی کشندۂ اعدا یہی ہے باز پسیں
تمہارا ناوک سر تیز میں کماں تم ہو
مجھے تمہیں نظر آتے ہو اور کوئی نہیں
مرے لئے سبھی محجوب ہیں عیاں تم ہو
مری نگاہ میں آفاق رنگ و بو لاشے
مری زمین وہ ہے جس کا آسماں تم ہو
پس از حیات بھی ہیں کتنی وادیاں باقی
ابھی جہاں کو خبر کیا کہاں کہاں تم ہو
ہمیں تمہاری اٹریا کی چھاؤں کافی ہے
سبھی کے سب ہیں ہمارے تو بس میاں تم ہو
تمہیں سناؤں جو یاد آئے مجھ پہ کیا گزری
کہ داستاں تو مری میرے دوستاں تم ہو
علاج پستیٔ امروز لاؤ تب جانیں
امین رفعت ادوار پاستاں تم ہو
تمہیں گلہ تھا کہ اک نسل خوابناک تھے ہم
سو لو کہ ہم تو چلے کل کے پاسباں تم ہو
نہ پوچھے کوئی تو یوں اپنے دل کو پھسلا لو
درفش لشکر فردا تو بے گماں تم ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.