عجب صحرا بدن پر آب کا ابہام رکھا ہے
عجب صحرا بدن پر آب کا ابہام رکھا ہے
یہ کس نے اس سمندر کا سمندر نام رکھا ہے
وہی اک دن شہادت دے گا میری بے گناہی کی
وہ جس نے قتل گل کا میرے سر الزام رکھا ہے
میں تم سے پوچھتا ہوں جھیل ڈل کی بے زباں موجو
تہہ دامن چھپا کر تم نے کیا پیغام رکھا ہے
کبھی بادل میرے آنگن اترتا پوچھتا میں بھی
کہستاں پر برسنا کس نے تیرا کام رکھا ہے
رہا ہوگا وہ کتنا دل غنی دست سخی جس نے
جنوں کی مملکت کا ایک پتھر دام رکھا ہے
یہی نا پھول سے بچھڑے تو آوارہ ہوں صحرا میں
کہوں کیا کس نے خوشبوؤں کا یہ انجام رکھا ہے
مجھے منظور وہ اقدار بھی رد سب کریں جن کو
کسی نے سوچ کر منظورؔ میرا نام رکھا ہے
- کتاب : Sher-e-Aasman (Pg. 67)
- Author : Maktaba aariz
- مطبع : Maktaba aariz
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.