عجب تھیں منزلیں جن سے گزار کر لائی
عجب تھیں منزلیں جن سے گزار کر لائی
ہوا ہی بام سے مجھ کو اتار کر لائی
مری سرشت کی ضد نے دکھایا رنگ اپنا
خزاں کی موج کو موج بہار کر لائی
نگاہ پھاند گئی باغ دل کا دروازہ
ثمر بھی شاخ توجہ سے پار کر لائی
کنارے آ تو گیا میں مگر حیات مری
ہر اک صلیب سے مجھ کو گزار کر لائی
خیال خشک نے سیراب ہونا چاہا تو
یہ آنکھ جمع کئی آبشار کر لائی
مہہ و نجوم نے کوشش بہت کی روکنے کی
فلک سے مجھ کو مری خو اتار کر لائی
بکھیرتے رہے ہم اور ہوا کی زندہ دلی
جب آئی جمع ہمارا غبار کر لائی
میں جس کو چاہتا تھا یہ پرندہ وہ تو نہیں
یہ کس کو میری تمنا شکار کر لائی
حریص ساعت خوش دیدہ تھی سو میرے لیے
گل فسردہ کو یاورؔ سنوار کر لائی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.