عجیب دل میں مرے آج اضطراب سا ہے!
عجیب دل میں مرے آج اضطراب سا ہے!
کھلی ہے آنکھ سمندر بھی ایک خواب سا ہے!
ٹھہر ٹھہر کے بجاتا ہے کوئی سازینہ
میں کیا کروں مرے سینے میں اک رباب سا ہے!
بجھے گی پیاس مری زہر آگہی سے کبھی
مرے دیار میں اس کا مزا شراب سا ہے!
میں کیوں کسی سے سر راہ رہبری مانگوں؟
نئی ہے منزل غم اک یہی جواب سا ہے!
چمکتی ریت سے رہ رہ کے اٹھ رہی نوا
کوئی مزار تھا پہلے کہ اب سراب سا ہے!
ہدف بنا کے نہ رسوا کرو زمانے میں
غریب شہر ہوں رتبہ مرا جناب سا ہے!
میں چھوڑ آیا ہوں مدت ہوئی غریبی کو
یہ میرا سایہ بڑا خانماں خراب سا ہے!
نہ جانے کیسے میں سیل رواں سے بچ نکلا؟
یہ زندگی کا تماشا تو اک حباب سا ہے!
میں کیسے خود کو سمجھ پاؤں بے کسی یہ ہے؟
کہ آئینہ نہیں عکسوں کا اک نقاب سا ہے!
نظر ملا کے میں اس سے گزر گیا باقرؔ
نہ جانے مجھ سے خفا یہ کہ لا جواب سا ہے!
- کتاب : Mujalla Dastavez (Pg. 299)
- Author : Aziz Nabeel
- مطبع : Edarah Dastavez (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.