عجیب حال ہے صحرا نشیں ہیں گھر والے
عجیب حال ہے صحرا نشیں ہیں گھر والے
گھروں میں بیٹھ گئے ہیں ادھر ادھر والے
نواح جسم نہیں گرچہ ریگزار سے کم
یہاں بھی خطے کئی ہیں ہرے شجر والے
اگرچہ شور بہت ہے در دعا پہ مگر
زبانیں بند کیے بیٹھے ہیں اثر والے
ہے راہ جاں یوں ہی سنسان ایک مدت سے
نہ گرد اڑی نہ دکھائی دیے سفر والے
بغیر آنکھ کے چہروں کا اب چلن ہے یہاں
وہ دن گئے کہ ہوا کرتے تھے نظر والے
ابھی میں شہر کو صحرا بنائے دیتا ہوں
کہ میرے ہاتھ بھی کچھ کم نہیں ہنر والے
سمٹ کے رہ گئے اب چند ساعتوں میں حسنؔ
یہی تھے کام کسی وقت عمر بھر والے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.