عجیب رت تھی برستی ہوئی گھٹائیں تھیں
عجیب رت تھی برستی ہوئی گھٹائیں تھیں
زمیں نے پیاس کی اوڑھی ہوئی ردائیں تھیں
وہ کیسا قافلہ گزرا وفا کی راہوں سے
ستم کی ریت پہ پھیلی ہوئی جفائیں تھیں
حصار ذات سے نکلا تو آگے صحرا تھا
برہنہ سر تھے شجر چیختی ہوائیں تھیں
وہ کون لوگ تھے جن کو سفر نصیب نہ تھا
وگرنہ شہر میں کیا کیا کڑی سزائیں تھیں
میں اپنے آپ سے بچھڑا تو خواب صورت تھا
مری تلاش میں بھٹکی ہوئی صدائیں تھیں
وہ ایک شخص ملا اور بچھڑ گیا خود ہی
اسی کے فیض سے زندہ مری وفائیں تھیں
کوئی خیال تھا شاید بھٹک گیا جو عقیلؔ
مرے وجود میں شب بھر وہی ندائیں تھیں
- کتاب : Pakistani Adab (Pg. 557)
- Author : Dr. Rashid Amjad
- مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.