عجیب طرح کا موسم رہا ہے آنکھوں میں
عجیب طرح کا موسم رہا ہے آنکھوں میں
بدن کا سارا لہو جم رہا ہے آنکھوں میں
کوئی بھی زخم ہو رونے سے ہلکا ہوتا ہے
ہر ایک زخم کا مرہم رہا ہے آنکھوں میں
یہ پنچھی اپنا نشیمن بدلتا رہتا ہے
کبھی تو دل میں کبھی غم رہا ہے آنکھوں میں
میں آنسوؤں کو تبرک سمجھ کے پیتا ہوں
چھپا ہوا کہیں زمزم رہا ہے آنکھوں میں
عجب نہیں ہے کہ کل باندھ ٹوٹ ہی جائے
ابھی تو سیل بلا تھم رہا ہے آنکھوں میں
کسی کی دید کا لمحہ گزر چکا کب کا
ابھی بھی جشن کا عالم رہا ہے آنکھوں میں
جو دل میں ہو وہ ہمیشہ دکھائی دیتا ہے
وہ دور رہ کے بھی پیہم رہا ہے آنکھوں میں
دکھائی دیتی ہے ہر شے مجھے حسین کمالؔ
کسی کے حسن کا البم رہا ہے آنکھوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.