اکثر اپنے در پئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
اکثر اپنے در پئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
سوچتے ہیں اس قدر بیمار ہو جاتے ہیں ہم
مضطرب ٹھہرے سو شب میں دیر سے آتی ہے نیند
صبح سے پہلے مگر بیدار ہو جاتے ہیں ہم
نام کی خواہش ہمیں کرتی ہے سرگرم عمل
اس عمل سے بھی مگر بیزار ہو جاتے ہیں ہم
جھوٹا وعدہ بھی اگر کرتی ہے ملنے کا خوشی
وقت سے پہلے بہت تیار ہو جاتے ہیں ہم
بھول کر وہ بخش دے گر روشنی کی اک کرن
دائمی شہرت کے دعویدار ہو جاتے ہیں ہم
مطمئن ہونا بھی اپنے بے خبر ہونے سے ہے
بے سکوں ہوتے ہیں جب ہشیار ہو جاتے ہیں ہم
اک ذرا سی بات اور پھر اشک تھمتے ہی نہیں
لہر سی اک دل میں اور سرشار ہو جاتے ہیں ہم
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 22.07.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.