اکیلے پن کی اذیت سے روشناس رہے
اکیلے پن کی اذیت سے روشناس رہے
اسیر لوگ ہمیشہ ہی بد حواس رہے
وہ خود ملے نہ ملے پر طلب تو ہو اس کی
کنواں رہے نہ رہے پر ہماری پیاس رہے
کسی کے واسطے قطرہ شراب بھی نہ رہی
کسی کے واسطے اشکوں بھرے گلاس رہے
وہ چاہتا ہے بچھڑ کر بھی خوش دکھائی دوں
وہ چاہتا ہے کہ مردہ بدن پہ ماس رہے
کسی بھی دل سے کوئی رہ گزر نہ ہو یعنی
ہر ایک گھر کے دریچے میں سبز گھاس رہے
اب اس سے بڑھ کے بھلا اضطراب کیا ہوگا
کہ شان پیر کو سن کے بھی دل اداس رہے
کسان ہیں سو دوپٹوں کی خیر مانگتے ہیں
کہ ان کے صدقے زمینوں میں کچھ کپاس رہے
غزل کا کیا ہے طوائف یہ پھر سنا لینا
شراب لا کہ یہیں پر یہ دیوداس رہے
ہم اس کے دل میں محبت نہیں جگا پائے
مزید کیسے بتائیں کہ کتنے خاص رہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.